Orhan

Add To collaction

سنگ مر مر

سنگ مر مر
 از قلم اسامہ رحمن مانی 
قسط نمبر19
آخری قسط

کامران نے فیصل سے نور کا نمبر مانگا۔۔۔ اس کو حیرانی ضرور ہوئی مگر اس نے نمبر بھیج دیا۔۔۔
کامران بہت خوش تھا ۔۔۔ اسے آہستہ آہستہ راہ ہموار ہوتی نظر آ رہی تھی۔۔۔ بس اب نور کا سب کچھ کومل کو بتانا تھا اور وہ ایمان تک پہنچ جاتا۔۔۔
لیکن اس کی خوشی یکا یک پریشانی میں بدل گئی جب نور نے اس کی کال نہ اٹھائی۔۔۔
کیا ہوا؟ کومل نے پوچھا۔۔
وہ میری کال نہیں اٹھا رہی۔۔۔ شاید وہ مصروف ہو گی۔۔۔بلکہ وہ اس وقت کالج میں ہو گی۔۔۔ مجھے یاد آیا...
مجھے تو لگتا ہے تم اب کوئی نیا ہی ڈرامہ کر رہے ہو۔۔۔
نھیں۔۔۔ایسا نھیں ھے۔۔۔ میں سچ کہ رہا ہوں۔۔۔ اچھا۔۔۔کیا مجھے آپ کا نمبر مل سکتا ہے؟ 
کامران نے منت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔ 
وہ کس لیے۔۔۔؟ 
میں نور سے کہوں گا وہ آپ سے کانٹیکٹ کر لے گی۔۔۔
تم مجھے اس کا نمبر دو میں خود ہی پوچھ لوں گی۔۔۔
اوکے۔۔۔
لیکن آپ کا نام جاننا چاہتا ھوں پلیز۔۔۔ 
کومل نایاب۔۔۔ وہ بولی
اچھا۔۔۔ویسے آپ کہاں رہتی ھیں؟ کیا آپ پلیز مجھے بتائیں گی۔۔۔ 
اگر تم سچے ہوئے تو تمہیں خود ہی پتہ چل جائے گا۔۔۔
وہ یہ کہ کر چلی گئی۔۔۔
___________________________
اے اللّٰہ۔۔۔ تو میری مدد فرما کہ۔۔۔میں اسے بھول سکوں۔۔۔اس کی کمی کو میرے دل سے نکال دے۔۔۔ یا اللہ تو اسے اپنی امان میں رکھنا۔۔۔ اب میں تھک چکا ہوں۔۔۔ میں جان گیا ہوں کہ وہ میری قسمت میں نھیں۔۔۔
وہ جہاں رھے خوش رھے۔۔۔ 
میں اب صرف تیرا سچا بندہ بنوں گا۔۔۔ دعا کرتے ہوئے فیصل کی آنکھیں اشک بار تھیں۔۔۔ 
اٹھتے اٹھتے اس کے منہ سے اچانک نکلا۔۔۔ یا اللّٰہ بس ایک بار مجھے اس سے ملا دے۔۔۔ اوہ یہ پھر میں کیا کہ رہا ہوں۔۔۔
دعا سے فارغ ہوتے ہی اس نے فون دیکھا تو کامران کی کال آ رہی تھی۔۔۔
ہیلو۔۔۔ایمان مل گئی۔۔۔
فیصل نے کال ریسیو کی ہی تھی کہ کامران خوشی سے چلایا۔۔۔
 فیصل کو اپنی سماعت پر یقین نہیں آ رہا تھا۔۔۔
کیا۔۔۔؟؟؟ اس نے دوبارہ پوچھا۔۔۔ 
ہاں فیصل۔۔۔ سچ کہ رھا ھوں میں۔۔۔تمھاری دعا قبول ھو گئی۔۔۔ 
میری دعا۔۔۔ میری دعا تو۔۔۔
ھاں ھاں۔۔۔ اچھا اب سن۔۔۔اس نے پھر ساری بات بتائی۔۔۔ فیصل سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔۔۔ یہ تو نے کیا کیا کامران۔۔۔ اب دوبارہ ہی نہ پھنس جاؤں یار میں۔۔۔ 
کچھ نھیں ہوتا۔۔۔ جب دوبارہ بات ہو گی تو میں سوری کر لوں گا بتا دوں گا کہ میں فیصل کا دوست ھوں۔۔۔ بس تو نور کو سمجھا دے سب کچھ۔۔۔ 
اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔ فیصل نے فون رکھتے ہوئے کہا 
___________________________
ہیلو۔۔۔
جی ہیلو السلام علیکم۔۔۔
آپ کون بات کر رہی ہیں؟ 
کال آپ نے کی ہے آپ بتائیے۔۔۔ نور دوسری جانب نسوانی آواز سن کر بولی۔۔۔
میرا نام کومل ھے۔۔۔
اوہ کومل نایاب۔۔۔ فیصل بھائی نے بتایا تھا۔۔۔ ایمان آپی آپ کے پاس ھیں۔۔۔؟ وہ خیریت سے ھیں۔۔؟ پلیز ان سے میری بات کرا دیں۔۔۔
پوری بات بتاؤ نور۔۔۔یہ سب کیسے ہوا۔۔۔ کومل نے سپیکر آن کر دیا۔۔۔ ایمان بھی پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔ وہ دونوں نور کی آواز سن سکتی تھیں۔۔۔
آپی کا رشتہ نہ ہو سکا تھا فیصل بھائی سے۔۔۔
ایک دن بعد آپی گھر سے چلی گئیں۔۔۔ان کے فون میں آخری میسج فیصل بھائی کا تھا اور ساتھ ہی ایک چٹھی بھی ملی تھی جس سے سب کو یہ یقین ہو گیا کہ وہ دونوں کہیں چلے گئے ھیں۔۔۔ مگر کچھ دن پہلے فیصل بھائی سے بات ہوئی تھی میری۔۔۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اسی دن ایک کیس میں اریسٹ کر لیے گئے تھے۔۔۔ اور یہ سب انہوں نے نہیں کیا۔۔۔یہ کس نے کیا اس بارے میں بھی ابھی وہ جان نھیں سکے۔۔۔ یہ بات اس وقت صرف ان کو اور مجھے پتہ ہے۔۔۔
لیکن اس دن کے بعد سے ایمان آپی لوٹ کر نہیں آئیں۔۔۔ 
میں نھیں جانتی وہ کس حال میں ھیں ۔۔۔ کہاں ھیں۔۔۔ اگر وہ آپ کے پاس ہیں تو ان کو بس ایک بات بتا دیجیے ان کو پلیز۔۔۔ 
فیصل بھائی کا کوئی قصور نھیں۔۔۔ وہ ان سے اب بھی اتنی ہی محبت کرتے ھیں۔۔۔ ان کی تلاش میں لگے ہوئے ھیں جس دن سے واپس آئے ھیں۔۔۔ 
نور خاموش ہوئی۔۔۔ 
میں تمہیں دوبارہ کال کرتی ہوں۔۔کومل نے کہا... 
کال کٹ گئی۔۔۔ ایمان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔۔۔ کومل نایاب کی آنکھیں بھی بھیگ چکی تھیں۔۔۔ اسی لمحے انہوں نے فیصل یعنی کامران کو فون کیا اور اپنا ایڈریس بتا کر وہاں بلا لیا۔۔۔
کامران نے فیصل کو بتایا۔۔۔اور اب وہ دونوں کومل نایاب کے پاس جا رہے تھے۔۔۔
کومل نے انھیں اندر بٹھایا۔۔۔
میں ایمان کو بلاتی ھوں۔۔۔
جی وہ۔۔۔ایک منٹ۔۔۔ کامران گڑبڑا گیا۔۔۔ 
کیا ہوا؟ وہ سب جان چکی ہے۔۔۔ تم فکر نہ کرو۔۔۔ 
وہ تو جان چکی ہے مگر آپ۔۔۔وہ کہتے کہتے رک گیا۔۔۔
میں ؟ کیا میں؟ کیا کہنا چاہتے ہو صاف صاف بولو۔۔۔
فیصل میں نھیں ھوں بلکہ یہ ھے۔۔۔میں اس کا دوست ھوں۔۔۔
کامران نے فیصل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔۔۔ 
کومل چند لمحے تو انہیں دیکھتی رہ گئی۔۔۔
دیکھیے پلیز میں آپکو ساری بات بتاتا ھوں۔۔۔ اگر میں آپ کو کل ہی یہ بتا دیتا کہ میں فیصل نھیں اس کا دوست ھوں تو آپ میری بات نہ سنتیں۔۔۔اس لیے مجھے یہ جھوٹ بولنا پڑا۔۔۔اس وقت یہ میری مجبوری تھی۔۔۔آئی ایم سوری۔۔۔ آپ سے ایمان کا پتہ کرنے کے لیے خود کو فیصل بتانا پڑا مجھے۔۔۔
وہ کامران کی بات سن کر کچھ نہ بولی۔۔۔
دونوں دل ہی دل میں گھبرائے ہوئے تھے۔۔۔ پھر اس نے کہا ۔۔۔ کوئی بات نہیں۔۔۔ یہ سب تم نے دوستی کی خاطر کیا ہے۔۔۔ اپنے دوست کے لیے کیا ہے۔۔۔ تم جھوٹے نھیں ہو۔۔۔ سچے ہو۔۔۔ تینوں چہروں پر مسکراہٹ تھی۔۔۔ پھر وہ ایمان کو بلا لائی۔۔۔ 
اور اس کا داخل ہونا تھا کہ فیصل اور ایمان دونوں کی نظریں ایک دوسرے پر لگی تھیں۔۔۔
فیصل کو یوں لگا جیسے اس کے دل پر سے کسی نے ایک لمحے میں کئی برسوں کا گرد و غبار اور دھول مٹی دور کر دی ہو۔۔۔اور وہ زنگ آلود دل پھر سے دھڑکنے لگا ہو... وہ کومل نایاب کا بے حد مشکور تھا۔۔۔
ایمان بھی فیصل کو اپنے سامنے پا کر آبدیدہ تھی۔۔۔
تم نے یہ کیسے مان لیا کہ میں تمہارے ساتھ ایسا کر سکتا ہوں ایمان۔۔۔ فیصل تڑپ کر بولا۔۔۔
ھاں میں نے مان لیا تھا... مگر... میرے دل نے کبھی اس بات کو نھیں مانا۔۔۔ میں تو بس زندہ تھی ایک جھوٹی سی امید کے ساتھ کہ ایک دن آپ آئیں گے اور کہیں گے وہ سب جھوٹ تھا۔۔۔ تمہارا ڈراؤنا خواب تھا ایمان۔۔۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔۔۔ 
"ھاں وہ سب کچھ جھوٹ تھا ایمان" ۔۔۔ فیصل مسکرا کر بولا۔۔۔
میں آپ کا شکریہ کیسے ادا کروں آپ نے گویا مجھے نئی زندگی دے دی۔۔۔ جاؤ فیصل۔۔۔اب تم ایمان کو لے جا سکتے ہو۔۔۔
 ایمان کومل سے لپٹ گئی۔۔۔کومل کے بہت احسانات تھے اس پر ۔۔۔ وہ اس کی بے حد ممنون تھی۔۔۔ 
کومل جی۔۔۔ وہ ہال۔۔۔شادی والا۔۔۔ کیا معاملہ تھا۔۔۔
اوہ... تو تم نے وہاں دیکھا تھا اسے۔۔۔ایک چھوٹا سا سین کرنا تھا شادی کا ۔۔۔ اس میں کوئی نئی لڑکی چاہئیے تھی بس ایک سین کے لیے۔۔۔ میں نے ڈائریکٹر سے کہ کر ایمان سے کروا لیا۔۔۔ تاکہ اس کا بھی تھوڑا دھیان بٹ جائے۔۔۔ 
ایمان۔۔۔ پہلے تمہیں کسی سے ملوانا ہے۔۔۔ ہم وہیں چلتے ہیں پہلے۔۔۔جن کی ایک نصیحت کی وجہ سے تم مجھے ملیں۔۔۔
وہ ایمان کو لیے اماں خیر النساء کے گھر پہنچا۔۔۔ آج خلاف معمول ان کے پوتے زاہد نے دروازہ کھولا۔۔۔ 
وہ مجھے اماں سے ملنا تھا۔۔۔ وہ گھر پر ھیں کیا۔۔۔ 
زاہد خاموش رہا۔۔۔ 
کیا ہوا۔۔۔ سب خیریت ہے نا۔۔۔؟
 تین دن پہلے اماں کا انتقال ہو گیا ہے۔۔۔
یہ خبر فیصل پر بجلی بن کر گری۔۔۔ وہ تو شکریہ ادا کرنے آیا تھا اماں کا۔۔۔ مگر ۔۔۔ وہ بہت پہلے چلی گئی تھیں۔۔۔
زاہد نے انھیں اندر بٹھایا۔۔۔
اماں نے دنیا سے جاتے جاتے تمہارے آنے کا بتایا تھا۔۔۔ اس نے مسکرا کر کہا۔۔۔
فیصل نے سر اٹھا کر زاہد کو دیکھا لیکن اب کی بار اسے حیرت اس بات پر نہ تھی کہ اماں نے آنے کی پیشین گوئی کر دی تھی۔۔۔بلکہ اس بات پر حیرت تھی کہ انہیں یہ یقین تھا ایمان مل جائے گی۔۔۔
اماں تمہیں بھی میری طرح چاہتی تھیں۔۔۔ جانتے ہو کیوں۔۔۔ 
فیصل نے جواب نہ دیا۔۔۔
کیوں کہ تم بھی میری طرح اماں ہی کے ہاتھوں میں پلے بڑھے ہو ۔۔۔ 
کیا۔۔۔؟؟؟ بے ساختہ فیصل کے منہ سے نکلا۔۔۔
اس نے زاہد کو یوں دیکھا جیسے اس نے کوئی اچھنبے کی بات کر دی ہو۔۔۔
آج سے بیس اکیس سال پہلے کی بات ہے۔۔۔جب ہم تمہارے گھر کے بالکل ساتھ رہتے تھے۔۔۔ ہم دونوں کے  والدین نوکری کرتے تھے ۔۔۔ اور تمہیں اماں کے پاس چھوڑ جاتے تھے۔۔۔ اماں نے بتایا کیسے ہم دونوں اکٹھے کھیلتے رہتے تھے ہر وقت۔۔۔ تم دن بھر ہمارے گھر میں رہتے تھے اماں کے پاس۔۔۔ سب کچھ اچھا چل رہا تھا۔۔۔ لیکن پھر اچانک۔۔۔ میرے ماں باپ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔۔۔
ہمارے حالات بھی پہلے جیسے نہ رہے۔۔۔ اور تمہارے والدین کا رویہ بھی بدلنے لگا۔۔۔ اب وہی ہمسائے۔۔۔ جو ایک گھر کی طرح رہتے تھے۔۔۔ مجھے اور اماں کو جھڑکنے لگے تھے۔۔۔ کچھ دن بعد تمہاری والدہ کے کچھ قیمتی زیورات چوری ہوئے۔۔۔ جس کا الزام اماں پر لگ گیا۔۔۔ اماں یہ بات برداشت نہ کر سکیں اور مجھے وہاں سے لے کر چلی آئیں۔۔۔ جاتے وقت تمہاری والدہ نے غصے میں کہا تھا کہ دوبارہ یہاں کا رخ مت کرنا۔۔۔
اماں نے جیسے تیسے کر کے مجھے اس قابل بنایا کہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکوں۔۔۔تمہیں بہت یاد کرتی تھیں۔۔۔ بہت پیار تھا تم سے۔۔۔
پھر بیس سال بعد تم سے ملاقات ہو ہی گئی۔۔۔اس بات پر اماں کتنا خوش تھیں یہ میں بتا نہیں سکتا۔۔۔ وہ رونے لگا۔۔۔ اماں نے تمہیں اپنا نام بھی کچھ اور بتایا تاکہ تم کہیں گھر میں ذکر نہ کر دو۔۔۔ان کا اصل نام تو صدیقہ تھا انہی کی طرح ۔۔۔
اماں بالکل میری طرح تمہارے دل کی ہر بات بھی جان جاتی تھیں۔۔۔جس پر تم بہت حیران ہوتے تھے کہ انہیں کیسے پتہ چلتا ہے۔۔۔ جانتے ہو رخصت ہوتے وقت انہوں نے مجھ سے کیا کہا۔۔۔ 
فیصل جواب نہ دے پایا۔۔۔ اس کے الفاظ حلق میں ہی رہ گئے۔۔۔
بیٹا میرے جانے کا وقت آ گیا ہے۔۔۔لیکن تو فکر نہ کر۔۔۔تیرا بھائی واپس آ رہا ہے۔۔۔ 
وہ دونوں پھوٹ پھوٹ کر رو دیے۔۔۔
کچھ دیر بعد فیصل اپنے گھر پہنچا۔۔۔اس کے ساتھ ایمان کو دیکھ کر اس کے والدین بہت حیران ہوئے مگر فیصل نے ساری بات بتائی تو انہیں بہت خوشی ہوئی۔۔۔
پھر وہ ایمان کے گھر گئے۔۔۔ وہاں بھی فیصل نے ان کو اصل حقیقت سے آگاہ کیا۔۔۔ 
سلیم اختر کا سر شرم سے جھکا تھا انہوں نے ایمان سے معافی مانگی۔۔۔ 
غلطیاں تو سبھی سے ہوتی ہیں ایمان۔۔۔ ایمان کے چپ کھڑے رہنے پر فیصل بولا تو وہ مان گئی۔۔۔........... 
جس محبت میں تم جیسا یقین ہو۔۔۔ وہ محبت کبھی ناکام ہو ہی نہیں سکتی فیصل۔۔۔
فیصل نے عظمی بیگم کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔۔۔ انہوں نے دیکھا وہ کچھ خفا خفا سا لگ رہا تھا۔۔۔
کیا ہوا فیصل۔۔۔؟ 
فیصل نے ساری بات انہیں بتائی۔۔۔ ان کی جانب سے کی گئی بیس سال پرانی بات انہیں یاد دلائی۔۔۔ وہ بہت شرمندہ ہوئیں۔۔۔ 
مجھے کل ہی لے چلو زاہد کے پاس۔۔۔ ہو سکتا ہے وہ مجھے معاف کر دے۔۔۔
وہ تو معاف کر دے گا۔۔۔ مگر کبھی کبھی کسی کام میں بہت دیر ہو جاتی ہے۔۔۔وقت گزر جائے تو پھر کہاں لوٹتا ہے۔۔۔ مرزا صاحب اور عظمی بیگم کافی رنجور تھے۔۔۔ مگر زاہد سے مل کر ان کو کچھ تسلی ہو گئی۔۔۔
___________________________
رکیں۔۔۔اب آپ پھر کہاں جا رہے ھیں۔۔۔ ایمان نے فیصل کو باہر نکلتے دیکھ کر پوچھا۔۔۔
ہوٹل جا رہا ہوں۔۔۔کیوں کیا ہوا۔۔۔ فیصل نے جواب دیا۔۔۔
ابھی تو آئے ہیں واپس۔۔۔
ہاں وہ کام سے آیا تھا نا۔۔۔اب واپس جا رہا ہوں۔۔۔ 
فیصل نے بتایا۔۔۔جانتا ہوں تمہیں میری ایک پل کی جدائی بے قرار کر دیتی ہے۔۔۔اور تم چاہتی ہو میں ہر پل تمہارے سامنے رہوں۔۔۔
اففف۔۔۔آپ کی یہ خوش فہمیاں۔۔۔ ایمان نے طنزیہ انداز میں کہا۔۔۔
وہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے باہر آئے۔۔۔
آج کی شام کتنی پیاری ہے۔۔۔ دیکھیں تو... آپ کو پھر بھی جانے کی پڑی ہے۔۔۔
اس نے دیکھا ہلکی ہوا سے لان میں موجود لہلہاتے پھولوں کی مہک واقعی شام کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہی تھی۔۔۔
ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ہوا پھولوں سے بڑے ناز کے ساتھ اظہار  محبت کر رہی ہے اور پھول بھی ہوا کے عشق میں رقصاں ھوں۔۔۔

   1
0 Comments